کوئٹہْ بلوچستان کے سیاسی رہنمائوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے سیاسی عمل میں خواتین کیلئے 33 فیصد نمائندگی وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین نے مختلف شعبوں میں اپنا لوہا منوایا ہے خواتین کو کوٹہ تک محدود کرنے کی بجائے انہیں دیگر مردوں کے مقابلے میں اوپن میرٹ کیلئے مواقع فراہم کی جانی چاہیے، سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت سے ان کے مسائل کے حل میں آسانی ہوگی بلکہ وہ خود ان خواتین کے مسائل کے حل کیلئے آگے بڑھ سکتی ہے جہاں تک ایک عام خاتون کی رسائی نہیں ہے۔حالیہ بلدیاتی انتخابات میں 212 خواتین نے براہ راست الیکشن لڑا جس میں 26 خواتین نے جنرل نشستوں پر جیت بھی حاصل کی یہ خواتین کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور خلیل جارج، بلوچستان کمیشن آن سٹیٹس آف وومن کی چیئرپرسن فوزیہ شاہین ، عورت فانڈیشن کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر علاالدین خلجی، جذبہ پروجیکٹ کی پروجیکٹ آفیسر یاسمین مغل، انسانی کمیشن کی ممبر فرخندہ اورنگزیب، ڈائریکٹر حقوق نسواں شازیہ ریاض، ایواجی الائنس کی چیئر پرسن ثنا درانی، سیاسی ورکر فاطمہ مینگل و دیگر نے عورت فانڈیشن کے پروجیکٹ جذبہ کے زیر اہتمام ساوتھ ایشیا پارٹنر شپ پاکستان اور بلوچستان کمیشن آن سٹیٹس آف وومن کے تعاون سے خواتین قیادت اسمبلی میں سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام میں سول سوسائٹی، وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ، سیاسی اور سماجی رہنما، وکلا اور خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ شرکا سے خطاب کرتے ہوئے عورت فانڈیشن کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر علاوالدین خلجی نے کہا کہ عورت فانڈیشن خواتین پر تشدد کے خلاف، معاشی و سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت سمیت مختلف پروگراموں پر کام کررہی ہے اس کے علاہ خواتین کو انصاف تک رسائی کا پروگرام بھی شامل ہیں مختلف علاقوں میں جینڈر جسٹس کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہے اور جسٹس ایڈوائزری گروپ حکومت بلوچستان، وکلا، سول سوسائٹی کے ادارے جو خواتین سے متعلق کام کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیونٹی کے ساتھ سٹیٹ بینک و دیگر بینکوں کے ساتھ مل کر خواتین کیلئے اکائونٹ بنانے کے پروسس و رسائی پروجیکٹ پر بھی کام کررہے ہیں۔پارلیمانی سیکرٹری خلیل جارج نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے وومن کمیشن تشکیل دیا ہے جو خواتین کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے جدوجہد کرے گا، خواتین کا نہ رتبہ کم ہے نہ مرد کا زیادہ ہے۔ پاکستان میں خواتین نے مختلف شعبوں میں اپنا لوہا منوایا ہے خواتین کو کوٹہ تک محدود کرنے کی بجائے انہیں دیگر مردوں کے مقابلے میں اوپن میرٹ کیلئے مواقع فراہم کی جانی چاہیے۔ پاکستان جس طرح ان سٹیبیلٹی کا شکار ہیں ہمیں پاکستان کے پرچم کو سربلند رکھنا چاہیے جو لوگ آئے اور چلے گئے لیکن پاکستان موجود ہے۔ تمام سیاسی خواتین کو بلدیاتی انتخابات کیلئے بھرپور تیاری کرنی چاہیے۔ میں بحیثیت رکن اسمبلی اور صوبائی کابینہ ممبر خواتین کے جائز مطالبات کی ہمیشہ حمایت کرتا رہوں گا۔بلوچستان کمیشن آن سٹیٹس آف وومن کی چیئر پرسن فوزیہ شاہین نے کہا کہ بلوچستان کمیشن آن سٹیٹس آف وومن خواتین کے حقوق، قانون سازی، تحقیق سمیت خواتین کے مسائل پر کام کررہا ہے سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت سے ان کے مسائل کے حل میں آسانی ہوگی بلکہ وہ خود ان خواتین کے مسائل کے حل کیلئے آگے بڑھ سکتی ہے جس تک ہر عام خاتون کی رسائی نہیں ہے۔ خواتین سیاسی عمل میں بھرپور حصہ لیں سائیڈ لائن ہونے کی بجائے آگے بڑھیں سول سوسائٹی کی آواز پالیسی کی شکل اختیار کرتی ہے جس کو آگے لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلوچستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب 1998 میں خواتین کو 26 فیصد نمائندگی حاصل رہی۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں 212 خواتین براہ راست الیکشن لڑا جس میں 26 نے جیت بھی حاصل کی یہ خواتین کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ جذبہ پروجیکٹ کی پروجیکٹ آفیسر یاسمین مغل نے کہا کہ عورت فانڈیشن کا جذبہ پروگرام جو انسانی معاشرے کی ترقی کیلئے سرگرم ہیں۔ خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت پر پاکستان کے 40 اضلاع میں کام کررہے ہیں جس میں 25 فوکس جبکہ 15 اضلاع کمپین شامل ہیں بلوچستان کے چار اضلاع کوئٹہ سبی کیچ اور گوادر شامل ہیں۔ خواتین بالخصوص سیاسی عمل سے منسلک خواتین کی تربیت کیلئے پروگرام منعقد کرتے ہیں پاکستان میں خواتین کی سیاسی عمل اور ووٹ کے کاسٹنگ میں حصہ بہت کم ہے جذبہ پروجیکٹ کے ذریعے کمیونٹی کے ساتھ مل کر کوشش کررہے ہیں کہ خواتین کا سیاسی عمل میں شمولیت بے حد ضروری ہے جتنا مرد ہے۔ انسانی معاشرے میں مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب خواتین مرد کے شانہ بشانہ مل کر کام کرے۔ جذبہ ڈسٹرکٹ فورم میں وکلا ڈاکٹرز صحافی سمیت مختلف مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہیں۔ ایواجی الائنس کی چیئر پرسن ثنا درانی نے کہا کہ خواتین کو سیاسی عمل میں 33 فیصد حصہ دینا چاہیے۔ جذبہ پروجیکٹ کو سراہاتی ہوں بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں میں خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے جس کیلئے ہمیں جدوجہد کی ضرورت ہے۔ پارٹیوں کے ہر شعبے میں خواتین کو نمائندگی دینے کی ضرورت ہے انہیں شمولیت کا موقع دیا جائے تاکہ انہیں آگے آنے کا موقع ملے۔ بارش کا پہلا قطرہ بننے والی خواتین کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ایک جدوجہد کا آغاز کیا۔